Question:
I want to know your opinion in regards to cutting split ends.
Answer:
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.
As-Salāmu ‘Alaykum Wa-Rahmatullāhi Wa-Barakātuh.
In principle, it is not permissible for women to cut their hair. Those women who cut their hair are distanced away from the mercy of Allah Ta’ala and are required to make istighfar.[1]
The two major factors for the prohibition are
1. Resembling non-muslim women’s hair styles
2. Resembling men in the act of cutting
Both of these are prohibited in Shariah. This is irrespective to whether the intention was to imitate and resemble them or not. Even without having an intention of imitation, it will be a sinful act.[2]
Shariah allows women to cut their hair at certain times of necessity. If a woman’s hair is damaged and cutting will resolve it, she may cut up to the point of necessity. It is allowed for women to cut split ends.[3]
And Allah Ta’ala Knows Best.
Arib Raza
Student Darul Iftaa
New York, U.S.A
Checked and Approved by,
Mufti Muhammad Zakariyya Desai.
• Women are permitted to slightly cut hair from the end in order to straighten and align it if it is not aligned.
كتاب النوازل 15/522
· Women are allowed to cut hair going past their waist. They should not cut beyond their waist.
فتاویٰ رحیمیہ 10/119
[1]
الفتاوي الولوالجية ت540ه (2/ 349)
المرأة إذا حلقت رأسها إن فعلت لوجع أصابها لا بأس به و إن فعلت تشبها بالرجل يكره لأنها ملعونة
الملتقط في الفتاوي الحنفية للسمرقندي ت556ه (102)
لا يحل للمرأة قطع شعرها كما لا يحل للرجل قطع لحيته و كذلك لو أذن الزوج في القطع لا يجوز
الحاوي القدسي للقاضي الغزنوي ت593ه .(2/323)
و حلق شعر المرأة لوجع أو مرض يجوز و لغير ضرورة لا يجوز.
مختارات النوازل ت593ه (411)
إمرأة حلقت رأسها لوجع أصابها لا بأس به والا فهو مكروه
خلاصة الفتاوي ت600ه (2/52)
و لو قطعت شعرها عليها أن يستغفر الله تعالي
المحيط البرهاني ت616ه (5/ 377)
وإذا حلقت المرأة شعرها؛ فإن حلقت لوجع أصابها فلا بأس به، وإن حلقت تشبها بالرجال فهو مكروه، وهي ملعونة على لسان صاحب الشرع
نصاب الإحتساب للسنامي ت725ه (142)
ذكر في “النوازل لسمرقندي” في كتاب النكاح سأل ابو بكر عن إمرأة قطعت شعرها قال عليها أن يستغفر الله تعالي و تتوب و لا تعود الي مثله قيل فان فعلت ذلك باذن زوجها قال لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق قيل له لم لا يجوز ذلك لها قال لانها شبهت نفسها بالرجال و قد قال النبي صلي الله عليه سلم لعن الله تعالي المتشبهين من الرجال بالنساء و المتشبهات من النساء بالرجال. لأن الشعر للمرأة بمنزلة اللحية للرجل فكما لا يحل للرجل ان يقطع لحيته لا يحل للمرأة ان تقطع شعرها
الفتاوى الهندية ت1086ه (5/ 358)
ولو حلقت المرأة رأسها فإن فعلت لوجع أصابها لا بأس به وإن فعلت ذلك تشبها بالرجل فهو مكروه كذا في الكبرى..
الدر المختار للحصكفي ت1088 ه (6/ 407)
وفيه: قطعت شعر رأسها أثمت ولعنت زاد في البزازية وإن بإذن الزوج لأنه لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق، ولذا يحرم على الرجل قطع لحيته، والمعنى المؤثر التشبه بالرجال
[2]
امداد الفتاویٰ جلد چہارم۔ ۲۲۷
عورتوں کے بال کٹوانا:
جواب؛ اس وضع مسئول عنہ کی حرمت پر دلائل صحیح قائم ہیں ، اور جوائز کی دلیل میں چند احتمالات ہیں ، اس لئے حرمت ثابت اورجواز پر استدلال فاسد، امر اوّل کا بیان یہ ہے کہ مبنیٰ اس وضع کا یقیناً تشبہ بالنساء الکفار ہے جو اہل وضع کو مقصود بھی ہے، اور اس میں تشبہ بالرجال بھی ہے، گو ان کو مقصود نہ ہو، اور اطلاق دلائل سے یہ تشبہ ہر حال میں حرام ہے ، خواہ اس کا قصد ہو یہ نہ ہو، اور علاوہ تشبہ کے منع پر اور دلائل بھی قائم ہیں
[3]
كتاب النوازل
اگر عورت کے سر کے بال پھٹ جائیں تو اس کو کاٹنا کیسا ہے ؟
سوال (۴۴۴) ؛ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر سر کے بالوں کی پونچھخراب ہوجائے یعنی پھٹ جائے تو عورت اس کو کاٹ سکتی ہے یا نہیں؛
باسمہٖ سبحانہ تعالی
الجواب و بالله التوفيق؛ عورت کے لئے بال بڑھانے کی غرض سے پھٹے ہوئے بالوں کو کاٹنے کی اجازت ہے اس میں کوئ حرج نہیں
عورت کا سر کے بالوں کو بالکل کنارے سے کاٹنا ؟
سوال (۴۴۶) ؛ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ؛ کیا عورت کے سر کے بال نیچے سے کچھ مقدار میں کاٹ سکتے ہیں ، یعنی چوٹی کا أخیر والا حصہ برابر کرنے کے لئے ؟
الجواب و بالله التوفيق؛ عورت اپنے سر کے بالوں کو برابر کرنے کے لئے بقدر ضرورت کچھ بال کاٹ سکتی ہے ۔
عن أبي سلمة بن عبدالرحمن قال؛ و كان ازواج النبى صلى الله عليه وسلم بأخذن من رؤسهن حتى تكون كالوفرة ، قال النووى ، و فىه دليل على جواز تخفيف الشعور للنساء.
عورت کا اپنے سر کے بال کٹوانا؟
سوال (۴۴۷) ؛ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ؛ کوئ عورت اپنے سر کے بال کٹوا سکتی ہے یا نہیں ؟ اگر ہاں تو اس کی وجہ اور حد بتائیں ؟
باسمہٖ سبحانہ تعالی
الجواب و بالله التوفيق؛ عورتوں کا مردوں کی طرح سر کے بال کاٹنا جیسا کہ آج کل فیشن أیبل عورتوں کا حال ہے قطعاً جائز نہیں ، کیونکہ احادیثِ شریفہ میں مردوں سے مشابہت کرنے والی عورتوں پر لعنت وارد ہوئ ہے ، البتہ اکادکا کوئ بال اگر اس طرح بڑھ جائے جو برا لگتا ہو تو زینت کے لئے اس کو کاٹنے میں کوئ مضائقہ نہیں ، کیونکہ اس سے مردوں کے ساتھ مشابہت لازم نہیں آتی۔
فتاویٰ رحیمیہ جلد دہم۔ ۱۱۹ کتاب الحظر و الا باحة
عورت کے زیادہ لمبے بال کاٹ کر کم کرنا:
سوال (۱۴۶) میری بارہ سالہ بچی کے بال بہت لمبے اور گھنے ہیں جو سرین تک پہنچتے ہیں ، بالوں کو دھونا اور صاف رکھنا اس کے لئے مشکل ہے، جوئیں پڑنے کا اندیشہ ہے، ایسی صورت میں بالوں کی لمبائ قدرے کم کر دی جائے تو لڑکی بآسانی اپنے بالوں کو سنبھال سکے گی، تو قدرے بال کو کٹوا دینا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ بینو اتو جروا۔
الجواب: گھنے اور لمبے بال عورتوں اور بچیوں کے لئے باعث زینت ہی…….)
لہذا بالوں کو چھوٹا نہ کیا جائے البتہ اتنے بڑے ہوں کہ سرین سے بھی نیچے ہو جائیں اور عیب دار معلوم ہونے لگیں تو سرین سے نیچے والے حصے کے بالوں کو کاٹا جا سکتا ہے ۔ فقط والله اعلم بالصواب ۔
بال بڑھانے کے لئے عورت کا بالوں کے سروں کو کاٹنا :
(سوال ۱۴۸) عورت اپنے بال بڑھانے کی نیت سے بالوں کے کنارے میں تھوڑے سے بال کاٹے تو کیسا ہے؟ بعض عورتوں نے بتایا کہ گاہے بال کے کنارے پر بال پھٹ کر اس میں سے دو بال ہو جاتے ہیں پھر بالوں کا بڑھنا بند ہوجاتا ہے ، اگر سرے سے کاٹ دئیے جائیں تو بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں تو ایسی صورت میں کاٹنا کیسا ہے؟ بینواتوجروا۔
(جواب) اگر معتدبہ مقدار تک بال بڑھ چکے ہیں تو مزید بڑھانے کے لئے بال کاٹنے کی اجازت نہ ہوگی ۔ فقط والله اعلم بالصواب